سنانے کو ہیں مبتلائے محبت
سنو تو سنائیں ماجرائے محبت
عام طور پریہ سنا جاتا ہے کے مبتلا انسان کسی روگ میں ، بیماری میں یاکسی پریشانی میں ہوتا ہے ۔کیا خوبصورت اور گہری بات ہے، “مبتلائے محبت”۔ میں نےیہ پہلی بار سنا یا پڑھا اور فوراََ ذہن نشین ہوگیا۔ سنا ہے کے حضرت بیدم شاہ وارسیؒ تو بڑی محبت والے تھے۔ اگر اُن کے نزدیک “مبتلائے محبت” ہے تو گویا محبت کو کسی بیماری، روگ یا پریشانی سے تشبیح دینا غلط نا ہوگا۔ کیونکہ اگر آپ نے کسی بھی چیز کی تعریف یا تفصیل پوچھنی ہو تو جو اس کیفیت میں ہے، اس حال سے گزر رہا ہے، اس پروسس کا حصہ ہے اس سے پوچھیں۔ وہ کہتے ہیں نا ، جس تن لاگے وہ تن جانے ۔۔ تو اگر حضرت بیدم شاہ وارسیؒ نے “مبتلائے محبت” کہا ہے تو میری کیا مجال کے میں اُن سے اتفاق نا کروں؟
یقینا آپ سب نے آکاش بیل کا سنا ہوگا اور شائد دیکھنے کا موقع بھی ملا ہو۔ یہ بیل اگر کسی درخت پر چڑھ جائے تو ساری خوراک وہ آکاش بیل ہی لےلیتی ہے اور جوہرا بھرا درخت ہے وہ اندر سے کھوکھلا ہوتاجاتا ہے۔ توحضرت بیدم شاہ وارسیؒ کی بات کو تھوڑا آگے لے جایا جائے اور محبت کو اگر آکاش بیل کہا جائے تو وہ بھی شائد غلط نہیں ہوگا۔ اب جب محب کو یہ آکاش بیل اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور وہ اندر سے خود کو کھوکھلا محسوس کرنے لگتا ہے تو سب سے پہلے یہ روگ دینے والے کی طرف بھاگتا ہے، اس سے رُجوع کرتا ہے تاکہ کوئی تدبیر ہوسکے۔ یہاں حضرت بیدم شاہ وارسیؒ کہتے ہیں،
جو دینا تھا تجھے خدائے محبت
مجھے موت دیتا ، بجائے محبت
اور وہی دن تو دِل کی تباہی کا دن تھا
کے جس دن پڑی تھی بِنائے محبت
گویا اتنی سخت پریشانی اور تکلیف ہے اور تو جو مجھےبھی بنانےوالا ہے اور محبت بھی تو نے بنائی ہے اوردی بھی تو نے ہے تو اِس کے بجائے موت ہی دے دیتا مجھے۔ کہ میرا دل تو اُسی دن تباہ ہوگیا تھا جس دن اس میں محبت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ کیا گہرا تعلق بنایا گیا ہے کے دِل کی تباہی اور محبت ایک روگ کی مانند۔۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کے محبت کا مسکن دِل ہے۔ لیکن جس دل کو یہ روگ راس آجائے، اسے دنیا میں پھر کسی اور چیز سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔
محبت کے کوچے میں جو مٹ گئے ہیں
ہے زیبا انہیں پہ قبائے محبت
یعنی محبت کا الم انہی کو ذیب دیتا ہے جو اِس کوچے میں مِٹ جاتے ہیں .تو یہ ایک فنا ہوجانے کا پروسس ہوتا ہے . مُحب کو جب یہ روگ لگ جاتا ہے تو یہ اسے آہستہ آہستہ فنا کرتا چلا جاتا ہے ۔ وہی روگ اس پر حاوی ہوتا چلا جاتا ہے ۔ محب آہستہ آہستہ خود سراپا محبت ہونے لگ جاتا ہے ۔ عاشق آہستہ آہستہ خود معشوق کے روپ میں آنے لگ جاتا ہے ۔
جیسے بابا بلھے شاہؒ نے فرمایا
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی۔۔
یا شاہ حسینؒ فرماتے ہیں
اندر توں ہیں، باہر توں ہیں، روم روم وچ توں
کہے حسین فقیر سائیں دا میں ناہیں، سبھ توں
تو پھر جس دل کو یہ روگ راس آجائے اُس عاشق کی آنکھوں میں آپکو حسن ِجاناں کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آئیگا ۔مثلاََ اگر میں آپ کے سامنے ہوں تو آپکی آنکھ سے مجھے میرا ہی عکس نظر آئے گا۔ لیکن ایک مُحب کی آنکھوں سے منظرِ حُسْن ِجاناں نظر آتا ہے، میرا یا کسی اور کاعکس نہیں ۔ ایسا عاشق پھر خالق کو بھی مخلوق کے حوالے سے دیکھنے لگ جاتا ہے اور مخلوق کو خالق کے حوالے سے ۔ یہ وہ بیماری ہے جس میں دماغ اپنے اوسان یوں خطا کر دیتا ہے کے ساری تقسیم ہی اُلٹ پھُلٹ ہو جاتی ہے . تو دِل میں جب محبت آجاتی ہے پِھر اس میں اور کچھ بھی نہیں رہتا ۔ جیسے پروانے کے دل میں شمع کی محبت اسے خود کو فنا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ قیس کے دل میں لیلیٰ کی محبت اسے مجنو بنا دیتی ہے۔ یہی محبت سوہنی کو بپھری ہوئی لہروں میں اور سسّی کو تپتے ہوئے تھل میں فنا کردیتی ہے۔ اور انتہا یہ کہ اسی محبت میں یہ ساری کائنات بھی تو بنائی گئی ہے کہ جو اللہ سائیں کامحبوب ترین تھا وہی وجہِ تخلیق کائنات بنتا ہے اور پھر اُسی محبوبﷺ کو کس محبت اور شان سے ملاقات کے لیئےعرش پر بُلایا جاتا ہے جس پر پوری کائینات کچھ لمحات کے لیئے دنگ رہ جاتی ہے۔ تو عاشق کے دل پر جو اگلی واردات ہوتی ہے وہ یہ کہ
کروں کیوں نا سجدے تجھےاے حُسْن ِجاناں؟
کہ میں بندہ ہوں، تُو ہے خدائے محبت ۔۔